ہیلیم
تعارف#
ہیلیم کاٸنات میں سب سے زیادہ مقدار میں پایا
جانے والا دوسرا سب سے بڑا ایلیمنٹ ہے جو کہ ہاٸیڈروجن کو چھوڑ کر باقی تمام ایلیمنٹس سے ہلکا ایلیمنٹ ہے۔اسکا اٹامک نمبر دو جبکہ اٹامک ماس چار ہے اور اسے He سے ظاہر کیا جاتا ہے۔اگرچہ یہ بہت زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے لیکن بہت کم ڈینسٹی کی وجہ سے یہ زمین کے ایٹموسفیر میں بہت ہی کم مقدار میں پایا جاتا ہے۔یہ کتنا کم پایا جاتا ہے اسکا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری ہوا کا صرف %0.00054 ہیلیم پر مشتمل ہوتا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب غبارے میں ہیلیم گیس بھری جاتی ہے تو غبارہ اوپر کی برف اڑان بھرتا ہے اور ایک مخصوص بلندی پر جاکر پھٹ جاتا ہے۔جب غبارہ تقریبا دس کلومٹر کی بلندی پر پہنچتا ہے تو چونکہ زمین کا ایٹموسفیر پریشر کم ہوتا ہے اور اندر کا پریشر زیادہ ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے غبارہ پھٹ جاتا ہے۔اگر اسکی خصوصیات کی بات کی جاۓ تو یہ ایک بے رنگ،بے بو اور بے ذاٸقہ اور غیر زیریلی گیس ہوتی ہے۔اسکا بواٸلنگ پواٸنٹ (268.9C-)باقی تمام ایلیمنٹس کی نسبت کم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسکو کولنگ ایجنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یعنی یہ بہت کم ٹمریچر پر بھی گیس حالت میں رہ سکتی ہے.ہمارے سورج میں %25 ہیلیم گیس پاٸ جاتی ہے جو کہ ہاٸیڈروجن کے بعد سب سے زیادہ مقدار میں پاٸ جانے والی گیس ہے۔
دریافت#
ہیلیم کی دریافت کے متعلق جاننے سے پہلے تھوڑا بہت سپکیٹروسکوپ کے بارے میں جان لیتے ہیں۔سپکیٹروسکوپ دراصل ایک ایسا آلہ ہے جس کے اندر ایک پرزم لگا ہوتا ہے اور جب ایک گرم جسم جب گلو کرتا ہے یعنی چمکتا ہے تو اسکی روشنی کو اس آلہ کی مدد مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس آلہ کو کیمسٹری میں بڑی اہمیت اہمیت حاصل ہے کیونکہ جب ایلیمنٹ کی بظاہر شناخت کرنا مشکل ہوتی ہے تو اسکی مدد سے اسکی شناخت کی جاتی ہے۔مثال کے طور پر جب سوڈیم گلو کرتا ہے تو اس میں سے نکلنے والی روشنی پیلے رنگ کی ہوتی ہے۔لیکن اگر اس روشنی کو سپیکٹروسکوپ کی مدد سے دیکھا جاۓ تو یہ رنگ چھوٹی چھوٹی پیلے رنگ کی لاٸنز جسے ایلمنٹ کی سپیکٹرل لاٸنز کہتے ہیں،کی صورت میں نظر آتا ہے۔اسی آلہ کی مدد سے دو ایلیمنٹس کے درمیان فرق کی شناخت کی جاتی ہے کیونکہ ہر ایلیمنٹس کا اپنا مخصوص سپیکٹرم ہوتا ہے یعنی سپیٹروسکوپ پر ہر ایلیمنٹ کی اپنی مخصوص لاٸنز بنتی ہے اور اسی کو تو اس ایلیمنٹ کا سپیکٹرم کہتے ہیں۔
ہیلیم وہ واحد ایلیمنٹ ہے جسکی دریافت سورج پر ہوٸ۔ہوتا کچھ یوں ہے کہ 1868ءمیں ایک فرانسیسی ماہر فلکیات پیٸر جانسن(Pierre Janssen) نے انڈیا کا سفر کیا تاکہ سورج گرہن کا نظارہ کیا جاسکے کیونکہ ان دنوں انڈیا میں مکمل طور پر سورج گرہن تھا۔سورج گرہن ماہر فلکیات کے لیے سورج کے سرفیس کا مطالعہ کرنے کا سنہرا موقع فراہم کرتا ہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ جانسن کو یہ چیز انڈیا لے آٸ۔اس نے جب سپکیٹروسکوپ کی مدد سے سورج کی روشنی کا مطالعہ کیا تو وہ یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ سپکیٹروسکوپ میں بننے والی لاٸنز یعنی سپیکٹرل لاٸنز اس وقت کسی دوسرے معلوم شدہ ایلیمنٹ کی سپکیٹرل لاٸنز کے ساتھ مشابہت نہیں کررہی تھیں۔اس کے علاوہ ایک اور ساٸنسدان نارمن لوکیٸر نے بھی سورج گرہن کے وقت ان لاٸنز کو دیکھا۔ان تمام شواہد سے یہ واضع ہوگیا کہ سورج پر ایک ایسا ایلیمنٹ موجود ہے جو زمین پر موجود نہیں ہے۔اس ایلیمنٹ کو لوکیٸر نے ہیلیم کا نام دیا۔چونکہ اسکی دریافت سورج کے سرفیس میں ہوٸ اس لیے اس ایلیمنٹ کو ہیلیم کا نام دیا گیا جس کا مطلب ہے سورج کا دیوتا جو کہ یونانی لفظhelios سے لیا گیا ہے۔1895ء میں ایک فزسٹ سر ویلیم ریمزے نے یہ معلوم کیا کہ ہیلیم گیس یورینیم کے منرلز میں بھی پاٸ جاتی ہے اور یہ ہیلم کی زمین پر پاۓ جانے کی پہلی کھوج تھی کیونکہ اس سے پہلے پیٸر جانسن کا یہی خیال تھا کہ یہ گیس صرف سورج کے سرفس میں ہی پاٸ جاتی ہے لیکن جیسے جیسے اس پر تحقیق ہوتی گٸ زمین پر اسکے پاۓ جانے کے شواہد ملتے گۓ۔اس پر جب مزید تحقیق ہوٸ تو معلوم ہوا کہ یہ ریڈیوایکٹو ایلیمنٹس کے نہ صرف ٹوٹنے سے حاصل ہوتی ہے بلکہ یہ زیرزمین قدرتی گیسز کے اورز میں بھی پاٸ جاتی ہے جسے ڈسٹیلیشن کے ذریعے دوسری گیسز سے علیحد کیا جاتا ہے۔ڈسٹیلشن دراصل ایسا عمل ہے جس میں زیر زمین کنواں کھود کر قدرتی گیسز کو ٹھنڈا کر کے ماٸع حالت میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اسکے بعد ان تمام گیسز کو ایواپوریٹ کیا جاتا ہے اور آخر پر جو گیس بچ جاتی ہے وہ ہیلم ہوتی ہے۔آج دنیا میں جتنی مقدار میں ہیلیم گیس حاصل کی جاچکی ہے اسکا زیادہ تر حصہ اسی طریقہ کے ذریعےحاصل کیا جاتا ہے۔امریکہ وہ واحد ریاست ہے جس کے پاس سب س زیادہ مقدار میں ہیلیم موجود ہے تقریبا دنیا کی%80 ہیلیم امریکہ کے پاس موجود ہے جبکہ دوسرے نمبر پر Qatar ہے جو دنیا کا ہیلیم کی مقدار رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہیلیم گیس کو مصنوعی طریقہ سے پیدا نہیں کیا جاسکتا،اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ سٹیبل گیس ہے یعنی پیریاڈک ٹیبل کے دوسرے ایلیمنٹس کے ساتھ کیماٸ تعامل نہیں کرتی۔اس لیے آپ کو ایسے کمپاٶنڈز دیکھنے کو نہیں ملیں گے جو ہیلیم گیس پر مشتمل ہوں۔کیونکہ یہ ایک ڈاٸ اٹامک گیس ہے یعنی یہ اپنے ویلنس شیل(S شیل) میں دو الیکٹرانز رکھنے کی وجہ سے اپنا ڈوپلیٹ رول مکمل کرلیتی ہے۔لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اسکی نان ری ایکٹیویٹی کی وجہ سے بہت سی جگہ پر اسکا استعمال بہت مفید ہے۔
قدرت میں بہتات#
ہیلیم کائنات اور نظام شمسی میں ہائیڈروجن کے بعد دوسرا سب سے زیادہ وافر عنصر ہے۔ کائنات میں موجود تمام ایٹموں میں سے تقریباً 11.3 فیصد ہیلیم ایٹم ہیں۔ اس کے مقابلے میں، کائنات کے تمام ایٹموں میں سے تقریباً 88.6 فیصد ہائیڈروجن ہیں۔ اس طرح، تمام ایٹموں میں سے کم از کم 99.9 فیصد ہائیڈروجن یا ہیلیم ایٹم ہیں۔
اس کے برعکس، ہیلیم زمین پر بہت کم مقدار میں پاٸ جاتی ہے۔ یہ نائٹروجن، آکسیجن، آرگن، کاربن ڈائی آکسائیڈ، اور نییون کے بعد فضا میں چھٹے سب سے زیادہ وافر گیس ہے۔ یہ ہوا کا تقریباً 0.000524 فیصد بناتا ہے۔
زمین کی پرت میں ہیلیم کی مقدار کا اندازہ لگانا شاید ناممکن ہے۔ یورینیم اور دیگر تابکار عناصر کے ٹوٹنے سے یہ گیس پیدا ہوتی ہے۔
استعمالات#
اسکو ویلڈنگ سسٹم میں استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ نان ری ایکٹو ہوتی ہے یعنی یہ کسی بھی دوسرے ایلیمنٹ ساتھ کیمیاٸ تعامل نہیں کرسکتی۔ویلڈنگ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں دو میٹلز کو بہت زیادہ ٹمپریچر پر آپس میں جوڑا جاتا ہے۔اگر یہ عمل کھلی فضا یعنی آکسیجن کی موجودگی میں کیا جاۓ تو چونکہ آکسیجن ری ایکٹو گیس ہوتی ہے اور بہت زیادہ ٹمریچر پر میٹلز کے ساتھ کیماٸ تعامل کرکے میٹل آکساٸیڈ بنادیتی ہے جس کی وجہ یہ میٹلز کی آپس میں جڑنے کی مضبوطی میٹل آکساٸیڈ کی وجہ کم ہوجاتی ہے۔اگر یہ عمل ہیلیم کی موجودگی اور آکسیجن کی غیر موجودگی میں کیا جاۓ تو چونکہ ہیلیم نان ای ایکٹو گیس ہوتی ہے لہذا میٹلز آپس میں مضبوطی سے جڑیں گی۔اسکی نان ری ایکٹنس کا فاٸدہ اٹھاتے ہوۓ اسکو Leakage detection system میں استعمال کیا جاتا ہے۔اگر پاٸپ کہیں سے لیک ہوجاۓ تو اسکی مدد سے لکیج کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔کیونہ یہ کیس بھی دوسری گیس کےساتھ ری ایکٹ نہیں کرسکتی،سو جب اسے پاٸپ کے ایک سرے سے گزارا جاتا ہے اور اس پاٸپ کے باہر ایک آلہ ہوتا ہے جسکی مدد سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ہیلیم پاٸپ سے کس جگہ سے نکل رہی ہے،اگر ہیلم کہیں سے زیادہ مقدار میں نکل رہی ہوگی تو آلہ پر سکے مطابق ریڈنگ ہوگی۔اسکے علاوہ اس کو سپر کنڈکٹو میٹیریلز حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔عام طور پر کوٸ بھی ایسا کرنٹ کیرینگ میٹیریل نہیں ہے جس کی کا ٹمریچر وقت کے ساتھ نہ بڑھتا ہے اور جیسے ہی ٹمپریچر بڑھتا ہے تو ہیٹ کی شکل میں انرجی کا لاس ہوتا ہے۔لیکن اگر یہ کام بہت ہی کم ٹمپریچر پر سرانجام دیا جاۓ تو کنڈکٹرز میں سے گزرنے والا کرنٹ کے خلاف عمل کرنے والی مزاحمتی فورس(رزسٹنس) اس قدر کم ہوگی کہ اس کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ہیلیم گیس کو میڈیل کے شعبہ میںMRI اسکینرز میں کولنگ ایجنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اسکے علاوہ ہیلیم کو غبارے بھرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،%80 ہیلیم اور %20 آکسیجن کا مرکب گہرے غوطہ خوروں کے لیے مصنوعی ماحول کے طور پر استعمال ہوتا۔جنگ عظیم دوم میں امریکہ نے اسکو دفاٸ مقاصد کے لیے استعمال کیا۔اس وقت امریکہ نے استعمال سے زیادہ مقدار میں ہیلیم گیس تیار کی۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ غباروں میں ہاٸڈروجن گیس کی بجاۓ ہیلیم گیس ہی کو کیوں ترجیح دی جاتی ہے حالانکہ ہاٸڈروجن گیس اس سے زیادہ ہلکی ہوتی ہے۔اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ہیلیم گیس ہاٸیڈروجن کی طرح آتش گیر نہیں ہوتی یعنی اگر دو غبارے ہوں جن میں سے ایک میں ہاٸیڈروجن گیس بھری ہو اور دوسرے میں ہیلیم گیس بھری ہو اور اگر ان دونوں کوپھٹایا جاٸے تو ہاٸیڈروجن گیس پر مشتمل غبارہ آگ پکڑے گا جبکہ ہیلیم پر مشتمل غبارہ آگ نہیں پکڑے گا۔
اثرات#
مزے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ ہیلیم گیس کو سانس کے ذریعے اندر لیجاٸیں تو آپ کی آواز تبدیل ہوجاۓ گی۔کیونکہ یہ انرٹ گیس ہوتی ہے اس لیے یہ ہمارے جسم کے لیے نقصان دہ نہیں ہے لیکن اگر بہت زیادہ مقدار میں ہیلیم سانس کے ذریعے اندر چلی جاۓ تو وہاں موجود آکسیجن کو ہٹاددیتی ہے اور چونکہ ہر ایک ٹشو کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے سو جس کی وجہ سے آپ کے جسم پر اس کے مضر اثرات ہوسکتے ہیں
تحریر: طاہرشاہ خلجی